Tuesday, April 3, 2012

دہن پر ہیں ان کے گماں کیسے کیسے




دہن پر ہیں ان کے گماں کیسے کیسے

کلام آتے ہیں درمیاں کیسے کیسے

زمینِ چمن گل کھلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

تمھارے شہیدوں میں داخل ہوئے ہیں
گل و لالہ و ارغواں کیسے کیسے

بہار آئی ہے، نشہ میں جھومتے ہیں
مریدانِ پیرِ مغاں کیسے کیسے

نہ مڑ کر بھی بے درد قاتل نے دیکھا
تڑپتے رہے نیم جاں کیسے کیسے

نہ گورِ سکندر، نہ ہے قبرِ دارا
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے

غم و غصہ و رنج و اندوہ و حرماں
ہمارے بھی ہیں مہرباں کیسے کیسے

تری کلکِ قدرت کے قربان آنکھیں
دکھائے ہیں خوش رو جواں کیسے کیسے

کرے جس قدر شکرِ نعمت، وہ کم ہے
مزے لوٹتی ہے، زباں کیسے کیسے

No comments:

Post a Comment